پاکستان کے حالات: بشریٰ اقبال حسین کا آج کا بلاگ
کیا پاکستان کی نازک صورت حال پر کوئی آپ کو آگاہ کرنے لگے تو آپ حیران ہوں گے؟ شاید نہیں
میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستان میں حالات کو ہر لحظہ بگڑتا ہوا ہی پایا ہے۔ اسی لئے شاید اب میں پیٹرول کی گرانی، چینی کے لئے قوم کی بےچینی، روزگار کی کمیابی، سیاست، صحافت، عدالت، طاقت کے سب اداروں کی دلالت، رذالت اور وکالت پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔ آپ کہہ سکتے ہیں میں بزدل ہوں، حق بات نہیں کہنا چاہتی، یا بے حس ہوں اپنے لوگوں کی تکلیف محسوس نہیں کرپاتی۔
آپ کو جو چاہے سوچیں، حکومت گرانے کا سوچیں، یا سٹیٹس کو کو جوں کا توں برقرار رکھنے کی سعی کریں۔ یہ آپ کا قانونی، جمہوری حق ہے۔ مگر کیا آپ کو اپنی فرسودہ جھنجھلاہٹ اور مایوسی کو پھیلانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
آپ کی گاڑی کا پہیہ راستے میں پنکچر ہوگیا تو آپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا دی، اس ملک میں تو پیدا ہی نہیں ہونا چاہئے۔ آپ کا بچہ امتحان تو پاس کر گیا مگر داخلے میں مشکل پیش آگئی تو آپ نے ملک کو لتاڑ دیا، آپ کے گھر میں دال چاول سے کنکر نکل آیا تو فیس بک کے آٹھ گروپس میں آپ نے پاکستان میں خوراک کے معیار کی دھائی دے دی۔ اپ کی بیٹی نے کچھ فیشنی ملبوسات کی فرمائیش کی اور آپ نے پوری پاکستانی ملبوسات کی صنعت پر تبرا بھیجنا اپنا فرض سمجھا۔
ہاں پاکستان میں کافی کچھ ایسا ہے جو نہیں ہونا چاہئے، لیکن یہ قطرہ قطرہ منفی سوچیں افراد کے زہنوں سے زہر بن کر جس طرح باہر آ رہی ہیں، وہ اجتماعی شعور کو دھیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔
قوم افراد سے مل کر بنتی ہے، آپ ، میں اور ہم، یہی قوم ہے ناں تو ہماری زندگیوں میں کیا کچھ بھی ایسا نہیں ہو رہا جو کچھ مثبت ہو؟ جیسے آج رات کم از کم آپ سکون کی نیند سوئے تھے۔یا دال سبزی کی سہی آج پیٹ بھر کھانا نصیب ہوا تھا؟ اپ کے پاس پینے کا پانی میسر تھا،خواہ آپ نے اسے خریدا تھا یا میونسپل کمیٹی کے نلکے سے بھرا تھا۔ سرخ بتی پر گاڑیاں رکیں تھیں اور آپ نے محفوظ طریقے سے سڑک پار کی تھی۔ آج مسجد سے واپسی پر آپ کے ہمسائے نے آپ کو مسکرا کر سلام کیا تھا۔ آپ کا بچہ نے آج پہلا قدم اٹھایا تھا، آپ نے اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ اچھا وقت گزارا تھا۔ آپ نے سورج طلوع یا غروب ہوتے دیکھا تھا، اور آسمان پر چاند بھی نظر آیا تھا۔ آپ کے پاس اپنی شوگر، بلڈ پریشر کی دوا موجود تھی، آپ کے دوست، یا بھائی بہن کی طبیعت بیماری کے بعد بحال ہو رہی ہے۔
زندگی صرف شکایات کا مجموعہ نہیں ہوسکتی۔ ہمیں کچھ تو شکرگذاری کا اظہار کرنا چاہئے۔ صبر و رضا سے پہلے جو ہے اس پر کچھ مثبت سوچ کر دیکھیں، آفاقہ ہوگا۔
اور اگر نہیں کرنا صبر و شکر تو سو بسم اللہ کریں جو کچھ بن پڑتا ہے بس اجتماعی شعور کو زہریلا نا کریں۔