بائیس لاکھ مربع میل کا انوکھا حکمران، پرھیے خنیس الرحمان کا بلاگ

اسلام تیزی کے ساتھ پھیل چکا تھا. میرے نبی ﷺ کو ایک بہادر قوی شخص کی ضرورت تھی. آپ اپنے رب سے دعائیں کیا کرتے کہ یا عمرو بن ہشام دے دے یا عمر ابن خطاب دے دے. اسلام سے خار کھانے والے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کایا ایسی پلٹی کہ دار ارقم میں پہنچ کر رسول اللہ ﷺ کو خوشخبری سنادی کہ آج آپ کی دعا قبول ہوچکی ہے. عمر آچکا ہے اب ہر طرف اسلام کا بول بالا ہوگا. توحید کی آوازیں گونجیں گی.وہی ہوا حالات بدلے عمر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے بعد حرم جا پہنچے, بیت اللہ میں نماز ادا کی کسی کی جرأت نہ تھی مکہ کے اس جری جوان کا راستہ روک سکے .حضرت صہیب بن سنانؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو اسلام ظاہر ہوگیا ،انہوں نے علانیہ طور پر اسلام کی دعوت دینا شروع کی ۔ہم نے بیت اللہ کا طواف کیااور بیت اللہ میں نماز پڑھی ۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں جب سے عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو ہم طاقتور اور مضبوط ہوتے گئے.
تقویٰ کا معیار ایسا تھا صحابی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کہ تقویٰ کیا ہے ؟.
فرماتے ہیں میں جب خطاب کی بکریاں چرایا کرتا تھا راستے میں جو کانٹے پڑے ہوتے اس کاہٹاتا اسی کو تقوی کہتے ہیں ۔ہر محاز پر غزوے میں رسول اللہﷺ کے دائیں بازو بن کررہے. غزوہ بدر میں قیدیوں سے متعلق مسئلہ بنا تو اللہ رب العزت نے بھی سیدنا عمر بھی خطاب کی رائے کو ترجیح دی. اللہ نے سلطنت عطاء کی, بائیس لاکھ مربع میل کے حاکم بنے.سخت گو عمر نرم گوشہ اختیار کرگئے .جب خلیفہ کا تعین کیا جارہا تھا مخالفتیں بڑھنے لگیں ,کئی اصحاب کہنے لگے کہ ابو بکر آپ ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر کرکے جارہے ہیں ,آپ نے ساتھیوں کو تسلی دی, وقت نے دیکھا وہ عمر جو سخت گو تو ان کی طبیعت میں نرمی آگئی. خلافت کے بوجھ نے انہیں اپنے اللہ سے مزید قریب کردیا. قحط آجاتا تو جو رعایا کھاتی وہی کھاتے ,ایک دن خادم پنیر لے آیا اس سے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ جب سب مدینے والے کھائیں گے اس وقت میں کھاؤں گا.
انصاف میں بھی آپ سے اعلیٰ مثال آج تک کوئی نہ قائم کرسکا.مصر کے حاکم عمرو بن عاص کے بیٹے نے غریب آدمی کو نقصان پہنچایا آپ نے عدالت قائم کی بیٹے کو بھی سزا دی اور حاکم مصر کو بھی سزا سنادی .ماتحت کوئی والی اگر اصراف کرتا تو جاکر پوچھ تاچھ کرتے اور اصلاح کرتے. مال غنیمت سے حاصل ہونے والے مال میں ایک دن ہار لایا گیا اٹھا کر قاصد کو واپس کردیا.
خدا خوفی اتنی تھی کہ کہتے اگر دریا فرات کے کنارے کتا بھی مرجائے تو میں جوابدہ ہوں. ایک دفعہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے، ہمراہ ابوبکر ؓ ،عمرؓ اور عثمان ؓ بھی تھے، اُحد کاپہاڑ لرزنے لگا توحضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک اُحد پر مارتے ہوئے فرمایا: ’’اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر اس وقت نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‘‘اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ: ’’اللّٰھم ارزقني شھادۃ في سبیلک وموتا في بلد حبیبک‘‘ ۔۔۔ ’’اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہر میں آئے ۔‘‘
آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں، آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے، اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا، نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی، صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا، اس نے آپؓ پر تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے . وہ شخصیت جس کی غیرت نے حضور نبی اکرم ﷺ کے قدموں کو اس کے محل میں داخل ہونے سے روک دیا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے محل میں چلا گیا

مرکزی ڈیسک

ٹوئن سٹی نیوز پاکستان کے دو بڑے شہروں راولپنڈی اسلام آباد کا مقامی سطح کا ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم ہے،جو جڑواں شہروں کی مقامی خبروں کے ساتھ راولپنڈی اسلام آباد کا مقامی کلچر، خوبصورتی، ٹیلنٹ اور شخصیات کو سامنے لےکر آتا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Open chat
رہنمائی حاصل کریں
السلام علیکم! ہم آپ کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟