سپریم کورٹ نے نظرِثانی کے نئے قانون کے خلاف آئینی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا
اسلام آباد ( نمائندہ ٹوئن سٹی نیوز ) سپریم کورٹ ری ویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ چیف جسٹس عمر عطاءبندیال کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی، تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کر لیے۔درخواستگزار علی محی الدین نے علی ظفر کے دلائل اپنا لیے۔
زمان خان وردگ نے بھی علی ظفر کے دلائل اپنا لیے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ تمام درخواستگزاروں کا شکریہ۔ تمام درخواستگزار اپنے دلائل تحریری طور پر بھی جمع کرا دیں۔تحریری جواب میں ریفرنسز بھی شامل کریں تاکہ مدد مل سکے۔فیصلہ جلد سنائیں گے، دیکھیں کیس کا کیا ہوتا ہے
وکلاء کو دو سے تین دن میں تحریری معروضات جمع کرنے کی ہدایت کی گئی۔
خیال رہے کہ 7 جون کو ہونے والی سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفرکا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں بھی یہی معاملہ اٹھایا گیا تھا، سپریم کورٹ نے اس پر حکم امتناع دے رکھا ہے، سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا حکم امتناع ریویو ایکٹ پربھی لاگو ہوتاہے، سپریم کورٹ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کو سن سکتی ہے، عدالت انتخابات نظرثانی کا فیصلہ ریویو ایکٹ کے فیصلے تک روک سکتی ہے ۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر ریویو ایکٹ لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بینچ میں دوبارہ سے دلائل دینا ہوں گے، عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہوچکا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کہ سب چاہتے ہیں کہ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ ہو، الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ ان کے پاس وسیع تر اختیارات ہیں، اپیل کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں، پنجاب انتخابات نظرثانی کیس نیا نہیں، اس پر پہلے بحث ہوچکی، الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل نظرثانی کا دائرہ کار بڑھانے پر تھے، انتخابات نظرثانی کیس لارجر بینچ میں جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل وہیں سے شروع کرسکتے ہیں۔