عمران خان کو اڈیالہ سے کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کا دوبارہ امکان
عمران خان کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کا دوبارہ امکان پیدا ہوگیا۔

حکومت پنجاب نے جیل کے قواعد و ضوابط میں ایک اہم اور بنیادی تبدیلی متعارف کر دی ہے، جس کے تحت ملزمان اور مجرموں کو ان کے اقامتی شہر یا ضلع میں سزا کاٹنے کے لیے رکھا جائے گا۔ اس فیصلے کا مقصد قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے سہولت پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اپنے پیاروں سے ملاقات میں آسانی محسوس کریں اور قانونی تقاضے زیادہ مؤثر طریقے سے پورے ہو سکیں۔
اس پالیسی کی روشنی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی ممکنہ طور پر لاہور جیل منتقلی کے حوالے سے چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ تاہم، اس سے پہلے کئی انتظامی اور قانونی پہلوؤں کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔ اس وقت عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں، جہاں انہیں تمام بنیادی اور اضافی سہولتیں میسر ہیں۔ وہ کسی بھی لمحے موت کی کوٹھڑی یا "چکی” میں قید نہیں رہے۔ ان کی خوراک اور دیگر ضروریات کا باقاعدہ خیال رکھا جا رہا ہے، اور ان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی یا ناروا سلوک کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
یہ خیال کہ کسی بیرک میں روشنی ختم کر دی جائے یا قیدیوں کو غیر معمولی دباؤ میں رکھا جائے، ایک غیر حقیقی تصور ہے۔ دنیا کی کسی بھی جیل میں اس قسم کے اقدامات کو سیکیورٹی تھریٹ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ روشنی اور نگرانی کا مسلسل فعال رہنا قیدیوں اور جیل عملے، دونوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اسی لیے، اس نوعیت کے الزامات یا قیاس آرائیاں حقیقت سے بعید ہیں۔
عمران خان کی لاہور منتقلی سے متعلق حتمی فیصلہ کرنے سے قبل حکومت کو مختلف عوامل کو مدنظر رکھنا ہوگا، جن میں سیکیورٹی انتظامات، جیل کی دستیاب سہولتیں، قانونی ضوابط اور دیگر عملی معاملات شامل ہیں۔ اگرچہ نئے قوانین کے تحت قیدیوں کو ان کے آبائی علاقوں میں سزا کاٹنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن کسی بھی بڑے فیصلے سے قبل تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہوگا تاکہ کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہو۔https://twincitynews.pk/ik-apologized/