پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں موٹاپے کے عالمی دن(ورلڈ اوبیسیٹی ڈے) کے حوالے سے تقریب منعقد کی گئی
اسلام آباد : پاکستان میں زیادہ وزن، موٹاپا اور خوراک سے متعلق این سی ڈیز خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں 40 فیصد سے زیادہ لوگ موٹے یا زیادہ وزن کا شکار ہیں۔ 5 سال سے کم عمر بچوں میں زیادہ وزن کا تناسب 2011 سے 2018 تک تقریباً دوگنا ہو گیا ہے۔ تولیدی عمر کی خواتین میں موٹاپا اور زیادہ وزن پانچ سالوں میں 28 فیصد سے بڑھ کر 38 فیصد ہو گیا۔ الٹرا پروسیسڈ فوڈز جن میں اکثر چینی، نمک یا ٹرانس فیٹس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے وہ موٹاپے اور دیگر بہت سی غیر متعدی بیماریوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں موٹاپے اور بیماریوں کو کم کرنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر پالیسی اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہ بات پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH) کے زیر اہتمام اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ موٹاپے کے عالمی (ورلڈ اوبیسیٹی ڈے) کے حوالے سے منعقدہ ایک سمپوزیم میں کہی گئی جس میں ماہرین صحت، پالیسی سازوں اور میڈیا نے شرکت کی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان مہمان خصوصی تھے۔ مہمانوں میں PANAH کےسابقہ صدر جنرل (ر) جنرل اشرف خان صاحب، گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر (GHAI) کے کنٹری ریپریزینٹیٹیو جناب منور حسین، نائب صدر PANAH کرنل ڈاکٹر شکیل احمد مرزا، صدر نیشنل پریس کلب اسلام آباد جناب انور رضا۔، سی ای او ہارٹ فائل ڈاکٹر صبا امجد، ماہرین صحت، سول سوسائٹی کے نمائندے اور میڈیا شامل تھے۔ تقریب کی میزبانی پناہ کے سیکٹری جنرل ثناء اللہ گھمن نے کی۔
ڈاکٹر ندیم جان نے موٹاپے اور این سی ڈیز سے نمٹنے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزارت صحت پاکستان میں صحت عامہ کی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزارت صحت نے پہلے ہی وزارت صحت میں میٹھے مشروبات کے استعمال پر پابندی لگانے کی ہدایت کی ہے اور دوسری وزارتوں کو ان غیر صحت بخش مشروبات پر پابندی لگانے کے لیے ایک ایڈوائزری جاری کی ہے۔اور انہوں نے مزید کہا اگرچہ میں ریٹائرڈ ہو چکا ہوں لیکن میرا تعاون ہمیشہ پناہ کے ساتھ رہے گا۔
جنرل اشرف خان صاحب نے اپنے خطاب میں غیر متعدی امراض اور موٹاپے سے ہونے والی بیماریوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ وزن اور موٹاپا دل اور دیگر بہت سی مہلک غیر متعدی بیماریوں کی بنیادی وجوہات ہیں۔ غیر صحت بخش غذا موٹاپے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میٹھے کا زیادہ استعمال موٹاپے کی اہم وجوہات میں سے ہے۔ سب سے زیادہ میٹھا ہماری خوراک میں میٹھے مشروبات کی صورت میں آتا ہے۔ حکومت پاکستان میں موٹاپے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے فوری پالیسی اقدامات کرے۔
جناب منور حسین نے اپنی پریزنٹیشن میں دنیا بھر سے ثابت شدہ ایسی پالیسیوں پر روشنی ڈالی جن سے میٹھے مشروبات /الٹرا پروسیسڈ پروڈکٹس کی کھپت کو کامیابی سے کم کیا گیا ہے۔ ان پالیسیز میں میٹھے مشروبات اور الٹرا پروسیسڈ پروڈکٹس پر زیادہ ٹیکس لگائے گئے۔ میٹھے مشروبات پر ٹیکس لگانا حکومت کے لیے تین طرح سے کامیابی ہے کیونکہ اس سے موٹاپے اور دیگر غیر متعدی امراض میں کمی آتی ہے، حکومت کو اضافی آمدنی ہوتی ہے اور حکومت کا اس پر کوئی خرچ نہیں آتا۔ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو صحت عامہ کے پروگراموں کے لیے مکمل یا جزوی طور پر مختص کیا جانا چاہیے۔
الٹرا پروسیسڈ پروڈکٹس پر فرنٹ آف پیک نیوٹریشن لیبلنگ صارفین کو صحت مند خوراک کے انتخاب میں رہنمائی کرتا ہے
ڈاکٹر شکیل احمد مرزا نے کہا’میٹھے مشروبات خوراک میں چینی کی مقدارکے اضافے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ مائع چینی جسم کے میٹابولزم کو تبدیل کرتی ہے اس میں ضرورت سے زیادہ کیلوریز ہوتی ہیں جو موٹاپے اور ٹائپ 2 ذیابیطس کا باعث بن سکتی ہے۔ الٹرا پروسیسڈ کھانوں میں اکثر چینی، نمک یا ٹران فیٹس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ہماری روزمرہ کی خوراک میں چینی، نمک اور ٹرانس فیٹس کی مقررہ حد کو تجویز کرتی ہے۔ اگر ہم بیماریوں کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں موٹاپے اور اُن کی وجہ بننے والے میٹھے مشروبات اور الٹرا پروسیسڈ پروڈکٹس کے ا ضافے کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ پالیسی اقدامات کرنے چاہئیں۔
ثناء اللہ گھمن نے شرکاء کو الٹرا پروسیسڈ فوڈز کے استعمال میں کمی کے حوالے سے PANAHs مہم کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ PANAH نہ صرف میٹھے مشروبات اور الٹرا پروسیسڈ فوڈز کے صحت کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں عام لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کام کر رہا ہے بلکہ ان کے استعمال کو کم کرنے کے لیے موثر پالیسیاں بنانے کے لیے پالیسی سازوں کے ساتھ بھی کام کر رہا ہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت کی وزارتوں اور محکموں میں میٹھے مشروبات پر پابندی لگانے پر وزیر صحت کا شکریہ ادا کیا۔
ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان صاحب نے پناہ کی جانب سے تمام مہمانو ں اور میڈیا کا شکریہ ادا کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کے حکومت ان غیر ضروری ایشاء پر ٹیکس لگائے تاکہ ان کا استعمال کم ہوسکے۔