برٹش-پاکستانی کمیونٹی کی ساکھ خراب کرنے کی ایک مذموم کوشش

گروہ بندی پر مبنی جرائم اور حقیقت: گمراہ کن بیانیہ | تحریر اسامہ قذافی

حال ہی میں ایلون مسک کے گروہ بندی پر مبنی بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے دیے گئے بیانات نے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ مسک کے دعوے، جو 2023 میں برطانوی سیاستدان سويلا بریورمین کی متنازعہ بات چیت کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں، برطانوی-پاکستانی کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے الزامات کا سبب بنے ہیں۔ ناقدین کے مطابق، یہ بیانات نہ صرف گمراہ کن ہیں بلکہ نسلی تنوع کے حقائق کو بھی مسخ کرتے ہیں۔

برطانوی پولیس کی نیشنل چیف کونسل (NPCC) کے فراہم کردہ اعداد و شمار ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، بچوں کے جنسی استحصال کے 83 فیصد ملزمان سفید فام تھے، جبکہ صرف 2.7 فیصد ملزمان کا تعلق پاکستانی کمیونٹی سے تھا۔ 2024 کے ابتدائی اعداد و شمار بھی اسی رجحان کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں 85 فیصد ملزمان سفید فام اور 3.9 فیصد پاکستانی تھے۔ 2015 کی ایک تحقیق کے مطابق، 1,200 سے زیادہ ملزمان میں 42 فیصد سفید فام، 14 فیصد ایشیائی، اور 17 فیصد سیاہ فام تھے۔

گروہ بندی پر مبنی جنسی استحصال کو اکثر میڈیا میں نمایاں توجہ دی جاتی ہے، لیکن یہ تمام بچوں کے استحصال کے کیسز کا محض ایک چھوٹا حصہ ہے۔ 2023 میں رپورٹ ہونے والے 115,489 بچوں کے استحصال کے کیسز میں یہ جرائم صرف 3.7 فیصد تھے۔ NPCC کے ہائیڈرینٹ پروگرام کے ڈائریکٹر رچرڈ فیوکس کے مطابق، یہ جرائم تمام نسلی اور سماجی پس منظر میں موجود ہیں اور کسی خاص کمیونٹی کے ساتھ منسلک نہیں کیے جا سکتے۔

اس تنازع کے اثرات خاص طور پر برطانوی-پاکستانی کمیونٹی کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان الزامات کی شدید مذمت کی ہے جو اس کمیونٹی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ 1.7 ملین افراد پر مشتمل یہ کمیونٹی برطانیہ کے صحت، ریٹیل، اور پبلک سروس کے شعبوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستانی نژاد افراد سیاست، فنون، اور کھیلوں میں بھی نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ ماہرین اور سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بچوں کے استحصال کے مسئلے کو نسل یا مذہب سے جوڑنا مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

یہ تنازعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کسی کمیونٹی کے چند افراد کے اعمال کو پوری کمیونٹی پر تھوپنا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ معاشرتی تقسیم کو بھی ہوا دیتا ہے۔ بچوں کے جنسی استحصال جیسے حساس مسائل کے حل کے لیے اعداد و شمار پر مبنی پالیسیوں، متوازن نقطہ نظر، اور ہر متاثرہ فرد کے لیے بغیر کسی تعصب کے انصاف کی ضرورت ہے

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Open chat
رہنمائی حاصل کریں
السلام علیکم! ہم آپ کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟