ایک باوقار سیاسی زندگی کا انجام — میاں محمد اظہر کی یاد میں
اللہ میاں محمد اظہر کو جوارِ رحمت میں جگہ دے، اور ان کے اہلِ خانہ، بالخصوص حماد اظہر کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

آج لاہور کی فضا سوگوار تھی۔ قذافی اسٹیڈیم کے باہر جنازہ ادا کیا گیا—یہ جنازہ تھا اُس سیاستدان کا جس نے لاہور کی سڑکوں سے لے کر پنجاب کے گورنر ہاؤس اور قومی اسمبلی کے ایوان تک، پاکستان کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے۔
میاں محمد اظہر، جو کل تک ہمارے درمیان زندہ سیاسی روایت کی علامت تھے، آج اپنی زندگی کی آخری منزل طے کر گئے۔
بلدیاتی سیاست سے قومی منظرنامے تک
میاں اظہر کا سیاسی سفر 1980 کی دہائی میں بلدیاتی سیاست سے شروع ہوا۔ 1987 سے 1991 تک وہ لاہور کے میئر رہے۔ شہر کی تعمیر و ترقی، تجاوزات کے خلاف کارروائیاں، اور شہری سہولیات کی فراہمی میں ان کا کردار قابلِ تحسین تھا۔
بلدیاتی سطح پر حاصل تجربہ ہی انہیں جلد پنجاب کی اعلیٰ سیاسی قیادت کی صف میں لے آیا۔
گورنر پنجاب کی حیثیت سے تدبر
1990 میں انہیں پنجاب کا گورنر مقرر کیا گیا، جہاں انہوں نے تین برس تک غیر جانبدار، متوازن اور معاملہ فہم قیادت کا مظاہرہ کیا۔ وہ ان چند گورنروں میں سے تھے جن کی شخصیت انتظامی صلاحیت، سیاسی حکمت اور ذاتی وقار کا مرقع تھی۔ ان کا دور اس لحاظ سے یادگار ہے کہ اس میں سیاسی تناؤ کے باوجود اداروں میں ہم آہنگی قائم رہی۔
مسلم لیگ (ق) کا بانی صدر
1999 کے بعد جب پاکستان کی سیاست نے ایک نیا موڑ لیا تو میاں اظہر نے مسلم لیگ (ق) کی بنیاد رکھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ جماعت مرکز اور صوبوں میں طاقتور حکومتی اتحاد کا حصہ بن گئی۔ میاں اظہر نے اس نئی جماعت کو قومی سطح پر متعارف کروایا، لیکن کچھ ہی عرصے میں اندرونی اختلافات اور طاقت کی سیاست نے ان کا راستہ بدل دیا۔
خودداری کا بوجھ، اصولوں کی قیمت
میاں اظہر کی سیاست ہمیشہ شخصی انا کے بجائے اصولوں کی تابع رہی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کبھی بھی کسی کے سیاسی درباری نہ بنے۔ جب انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنی بیٹی کی شادی میں بلایا تو اس "رواداری” پر شریف خاندان نے ناراضی اختیار کی، جس کے بعد ان کے راستے جدا ہو گئے۔
آخری باب: تحریک انصاف سے وابستگی
سیاسی زندگی کے آخری عشرے میں انہوں نے تحریک انصاف کا رخ کیا۔ ان کے بیٹے حماد اظہر نے قومی سطح پر قیادت سنبھالی، لیکن میاں اظہر ہمیشہ پارٹی میں ایک باوقار بزرگ رہنما کے طور پر موجود رہے۔ 2024 کے انتخابات میں انہوں نے لاہور کے حلقہ NA-129 سے کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کیا کہ اصولوں پر چلنے والے لوگ عوام کے دلوں میں جگہ بناتے ہیں۔
جنازہ، خاموش عقیدت کی گواہی
آج ان کا جنازہ لاہور کی ایک بڑی شاہراہ پر ادا ہوا۔ سیاست دان، کارکن، نوجوان، بزرگ—ہر کوئی موجود تھا۔ لیکن یہ محض ایک جنازہ نہ تھا، بلکہ یہ ایک عہد کا اختتام تھا۔ وہ عہد جس میں سیاست دلیل، وقار، خاموشی اور تدبر کے ساتھ کی جاتی تھی۔ وہ عہد جس میں پارٹی کے ساتھ اختلاف رکھنے والا بھی احترام پاتا تھا۔
میاں محمد اظہر کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ سیاست میں اقتدار سے زیادہ کردار کی اہمیت ہوتی ہے۔ انہوں نے کسی پر کیچڑ اچھالے بغیر، جماعتیں تبدیل کیے بغیر، ہر موڑ پر خود کو باوقار اور مستقل مزاج سیاستدان کے طور پر منوایا۔
ان کی وفات بظاہر ایک فرد کا نقصان ہے، مگر درحقیقت وہ سیاسی وقار اور اصولوں کی سیاست کا تابناک باب تھے۔ شاید آج کی نسل کو اُن جیسے قائد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
اللہ میاں محمد اظہر کو جوارِ رحمت میں جگہ دے، اور ان کے اہلِ خانہ، بالخصوص حماد اظہر کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔