خیبر پختونخوا کے سیلاب، موسمیاتی تبدیلی اور انسانی غفلت کا سنگین امتزاج
خصوصی تحریر: عثمان پراچہ

خیبر پختونخوا کے پہاڑی اضلاع بونیر اور سوات میں حالیہ بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ چند گھنٹوں کی شدید بارش نے پورے دیہات بہا دیے، سیکڑوں افراد جان کی بازی ہار گئے اور ہزاروں گھرانے بے گھر ہو گئے۔ سڑکیں، پل اور کھیت مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔ ماہرین اسے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کا ایک اور واضح ثبوت قرار دے رہے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے ملک میں مون سون کی بارشوں کا پیٹرن غیر معمولی طور پر بدل رہا ہے۔ کبھی کئی ہفتے بارش نہیں ہوتی اور پھر اچانک چند گھنٹوں میں اتنی بارش ہو جاتی ہے جتنی پورے مہینے میں ہونی چاہیے۔ یہی موسمیاتی تبدیلی کا سب سے خطرناک پہلو ہے، جو کلاؤڈ برسٹ اور تباہ کن سیلاب کو جنم دیتا ہے۔
تاہم صرف موسمیاتی تبدیلی کو ذمہ دار ٹھہرا دینا کافی نہیں۔ ہماری اپنی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی بھی اس تباہی کو بڑھاتی ہے۔ پہاڑوں پر درختوں کی کٹائی نے زمین کو کمزور کر دیا ہے۔ ندی نالوں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات پانی کے قدرتی راستے کو بند کر دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بارش کا پانی رکاوٹیں توڑ کر انسانی بستیوں پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔
اس صورتحال سے نکلنے کے لیے وقتی ریلیف کافی نہیں ہوگا۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو پائیدار اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے پہاڑی علاقوں میں بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم چلانا ضروری ہے تاکہ زمین اپنی اصل مضبوطی واپس حاصل کرے۔ دوسرا، دریاؤں اور نالوں کے کنارے تعمیرات پر سخت پابندی عائد کی جائے۔ تیسرا، جدید وارننگ سسٹم نصب کیے جائیں تاکہ مقامی آبادی بروقت محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکے۔
مزید یہ کہ متاثرہ خاندانوں کو صرف فوری امداد نہیں بلکہ محفوظ رہائش، روزگار اور معاشی بحالی کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں۔ اگر حکومت اور معاشرہ سنجیدہ اقدامات نہ کرے تو ہر سال ایسے واقعات دہرائے جائیں گے اور انسانی جانوں کا نقصان بڑھتا ہی جائے گا۔
موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی حقیقت ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں یہ حقیقت مزید خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے کیونکہ یہاں وسائل کی کمی، پالیسیوں کی کمزوری اور ماحولیاتی غفلت پہلے ہی صورتحال کو بگاڑ چکی ہے۔ بونیر اور سوات کا حالیہ سانحہ ایک وارننگ ہے کہ وقت کم ہے اور اقدامات فوری طور پر کرنے ہوں گے۔