پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے پرعزم ہے ، اتحادی حکومت نے پہلے ہی سیاسی قیمت پر کئی مشکل فیصلے کئے ہیں، وزارت خزانہ
اسلام آباد (نمائندہ ٹوئن سٹی نیوز) وفاقی وزارت خزانہ ومحصولات نے کہاہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے پرعزم ہے،اتحادی حکومت نے پہلے ہی سیاسی قیمت پر کئی مشکل فیصلے کئے ہیں، معاملہ کے خوش اسلوبی سے حل کیلئے ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جمعہ کویہاں جاری بیان کے مطابق وزارت خزانہ نے پاکستان میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ریزیڈنٹ نمائندہ کے بیان کاجائزہ لیاہے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے پرعزم ہے اوراس حوالہ سے ہماری بات چیت بھی جاری ہے چونکہ پریس میں بعض ایشوز اٹھائے گئے ہیں اسلئے ہماراخیال ہے کہ ان اموربارے اپنی پوزیشن کی وضاحت مناسب ہوگی۔
پریس میں جاری بیان میں مخصوص امورکے بارے میں وضاحت سے پہلے بات چیت کے سیاق وسباق کو دیکھنا ضروری ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ 9 واں جائزہ فروری 2023میں ہوا، حکومت پاکستان نے برق رفتاری سے تمام تکنیکی امورمکمل کرلئے تھے، واحد معاملہ بیرونی فنانسنگ سے متعلق تھا جو کہ ہماراخیال ہے کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف اورآئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرکے درمیان 19 مئی کوہونے والی ٹیلی فونک بات چیت میں احسن طریقے سے حل ہوا، اگرچہ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ کبھی بھی 9 ویں جائزہ کا حصہ نہیں رہا تام آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے وزیراعظم کے کمٹمنٹ کے مطابق وزارت خزنہ نے آئی ایم ایف کے مشن کے ساتھ بجٹ کے اعدادوشمارشئیرکئے جبکہ بجٹ کے دوران بھی ہمارا آئی ایم ایف مشن کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا۔وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ریزیڈنٹ نمائندہ ایستھر پیریز کی جانب سے جہاں تک ٹیکس کی بنیاد سے متعلق معاملہ ہے تو ایف بی آر نے جاری مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں 11لاکھ 61 ہزار نئے ٹیکس گزاروں کوشامل کیا ہے، ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافہ کی شرح 26.38 فیصدبنتی ہے، یہ ایک جاری مشق ہے اوریہ سلسلہ چلتا رہے گا، نان فائلرز کیلئے 50 ہزار روپے سے زائد کی رقوم نکلوانے پر0.6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس اسی سمت میں ایک اورقدم ہے۔
بیان کے مطابق بجٹ میں جن شعبہ جات کیلئے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے وہ معیشت کے حقیقی شعبہ جات ہیں جونمو کے انجن کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ شہریوں کوروزگار دلانے کا ایک پائیدارراستہ ہے، اس چھوٹ کا حجم بہت کم ہے۔ معاشرے کے معاشی طورپرکمزورطبقات کیلئے اقدامات صرف بی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والوں تک محدودنہیں ہے، اس بجٹ کاحجم 400 ارب سے 450 ارب کردیاگیاہے، فروری 2023 میں یہ بجٹ 350 سے بڑھا کر400 ارب کردیاگیاتھا،ملک میں غربت کی لکیر سے اوپر بھی دسویں لاکھوں لوگ موجود ہیں جومعاشی مسائل کا سامنا کررہے ہیں، بجٹ میں یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے ذریعہ 5 ضروری اشیاء پر35 ارب تک کی سبسڈی دی جارہی ہے، اس اسے استفادہ کرنے والوں کاسکور32 سے بڑھا کر40 کردیا گیاہے۔یہ سہولت بی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والوں کیلئے بھی دستیاب ہے۔ جہاں تک ایمنسٹی کاتعلق ہے تو واحد تبدیلی آئی ٹی آرڈی ننس کے متعلقہ پرویژنز کے تحت قدر کو ڈالرائز کرنا ہے،یہ سہولت آئی ٹی آرڈی ننس کے سیکشن 111 چار کے تحت پہلے سے موجودہے۔ ایک کروڑ روپے کی کیپ 2016 میں متعارف کرائی گئی تھی۔ اس کیپ کوایک لاکھ ڈالرکے مساوی روپوں کے زریعہ حل کیا گیاہے۔ بیان میں کہاگیاہے کہ پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے پرعزم ہے اور9 ویں جائزہ کو مکمل کرنے میں گہری دلچسپی لے رہاہے، اتحادی حکومت نے پہلے ہی سیاسی قیمت پر کئی مشکل فیصلے کئے ہیں، معاملہ کے خوش اسلوبی سے حل کیلئے ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے۔
پریس میں جاری بیان میں مخصوص امورکے بارے میں وضاحت سے پہلے بات چیت کے سیاق وسباق کو دیکھنا ضروری ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ 9 واں جائزہ فروری 2023میں ہوا، حکومت پاکستان نے برق رفتاری سے تمام تکنیکی امورمکمل کرلئے تھے، واحد معاملہ بیرونی فنانسنگ سے متعلق تھا جو کہ ہماراخیال ہے کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف اورآئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرکے درمیان 19 مئی کوہونے والی ٹیلی فونک بات چیت میں احسن طریقے سے حل ہوا، اگرچہ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ کبھی بھی 9 ویں جائزہ کا حصہ نہیں رہا تام آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے وزیراعظم کے کمٹمنٹ کے مطابق وزارت خزنہ نے آئی ایم ایف کے مشن کے ساتھ بجٹ کے اعدادوشمارشئیرکئے جبکہ بجٹ کے دوران بھی ہمارا آئی ایم ایف مشن کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا۔وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ریزیڈنٹ نمائندہ ایستھر پیریز کی جانب سے جہاں تک ٹیکس کی بنیاد سے متعلق معاملہ ہے تو ایف بی آر نے جاری مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں 11لاکھ 61 ہزار نئے ٹیکس گزاروں کوشامل کیا ہے، ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافہ کی شرح 26.38 فیصدبنتی ہے، یہ ایک جاری مشق ہے اوریہ سلسلہ چلتا رہے گا، نان فائلرز کیلئے 50 ہزار روپے سے زائد کی رقوم نکلوانے پر0.6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس اسی سمت میں ایک اورقدم ہے۔
بیان کے مطابق بجٹ میں جن شعبہ جات کیلئے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے وہ معیشت کے حقیقی شعبہ جات ہیں جونمو کے انجن کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ شہریوں کوروزگار دلانے کا ایک پائیدارراستہ ہے، اس چھوٹ کا حجم بہت کم ہے۔ معاشرے کے معاشی طورپرکمزورطبقات کیلئے اقدامات صرف بی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والوں تک محدودنہیں ہے، اس بجٹ کاحجم 400 ارب سے 450 ارب کردیاگیاہے، فروری 2023 میں یہ بجٹ 350 سے بڑھا کر400 ارب کردیاگیاتھا،ملک میں غربت کی لکیر سے اوپر بھی دسویں لاکھوں لوگ موجود ہیں جومعاشی مسائل کا سامنا کررہے ہیں، بجٹ میں یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے ذریعہ 5 ضروری اشیاء پر35 ارب تک کی سبسڈی دی جارہی ہے، اس اسے استفادہ کرنے والوں کاسکور32 سے بڑھا کر40 کردیا گیاہے۔یہ سہولت بی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والوں کیلئے بھی دستیاب ہے۔ جہاں تک ایمنسٹی کاتعلق ہے تو واحد تبدیلی آئی ٹی آرڈی ننس کے متعلقہ پرویژنز کے تحت قدر کو ڈالرائز کرنا ہے،یہ سہولت آئی ٹی آرڈی ننس کے سیکشن 111 چار کے تحت پہلے سے موجودہے۔ ایک کروڑ روپے کی کیپ 2016 میں متعارف کرائی گئی تھی۔ اس کیپ کوایک لاکھ ڈالرکے مساوی روپوں کے زریعہ حل کیا گیاہے۔ بیان میں کہاگیاہے کہ پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے پرعزم ہے اور9 ویں جائزہ کو مکمل کرنے میں گہری دلچسپی لے رہاہے، اتحادی حکومت نے پہلے ہی سیاسی قیمت پر کئی مشکل فیصلے کئے ہیں، معاملہ کے خوش اسلوبی سے حل کیلئے ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے۔