جڑواں شہروں میں بدلتا موسم اور بڑھتا خطرہ: موسمیاتی تبدیلی کی خاموش چیخ
تحریر : نوید احمد

وہ شہر جو کبھی شام ڈھلتے ہی محبتوں میں بھیگ جاتا تھا، مارگلہ کی پہاڑیوں سے اترتی ٹھنڈی ہوائیں، پرندوں کے غول، مدھم روشنیوں میں گم ہوتے سائے ، بارش کے بعد چمکتی سڑکیں، F-6 کی گلیوں میں سرسراتی ہوا اور دامن کوہ کی خاموشی میں فطرت کا سکون یہ سب دنیا کے خوبصورت دارالحکومت اسلام آباد کی پہچان تھا۔ مگر اب یہ شہر بدل رہا ہے
اب نہ وہ نیلا آسمان ویسا ہے، نہ وہ فضاء ہے شہر اقتدار کی آج کی شامیں گرد آلود ہوا، نمی اور بے ترتیبی کے ہالے میں لپٹی نظر آتی ہیں۔ ماسک چہرے پر، پریشانیاں دل میں، اور پیاس ہاتھ میں لئے لوگ پارکوں سے جلد واپسی کی فکر میں رہتے ہیں۔ اسلام آباد جو کبھی پاکستان کا منصوبہ بند، پُرسکون اور ماحولیاتی لحاظ سے بہترین شہر تھا، اب پانی کی شدید قلت کا شکار ہو چکا ہے شہریوں کی واٹر ٹینکروں کے لیے لمبی قطاریں ایک معمول ہے۔ یہ صرف پانی کی کمی نہیں بلکہ فطرت کی خاموش انتقامی چیخ ہے۔
رواں سال اپریل کے پہلے دو ہفتے کی بات کی جائے تو محکمہ موسمیات کے مطابق یکم سے 17 اپریل تک پاکستان میں ہونے والی بارشیں گزشتہ 30 برس کی اوسط سے 99 فیصد زیادہ تھیں۔ یہ کوئی عام موسمی تغیر نہیں تھا، بلکہ ایک واضح انتباہ تھا کہ گلوبل وارمنگ نے بادلوں کو بے قابو کر دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب فضا میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور زمین کے قدرتی راستے کنکریٹ میں بدل دیے جاتے ہیں تو پانی کو جذب ہونے کی مہلت نہیں ملتی اور نتیجہ فلیش فلڈز کی صورت میں نکلتا ہے۔
اسلام آباد میں 16 اپریل کو آنے والی شدید ژالہ باری نے یہ بات ثابت کر دی۔ سڑکیں سفید ہو گئیں، گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے، سولر پینلز چکناچور ہوئے اور کئی دکانوں کی چھتیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان سے برفانی گولے برس رہے ہوں۔ بچے خوف سے سہم گئے، گھروں میں چھتیں ٹپکنے لگیں، اور شہری اس اچانک قیامت کے سامنے بے بس کھڑے تھے۔
راولپنڈی بھی اس تبدیلی سے محفوظ نہیں رہا۔ بے ہنگم ٹریفک، بڑھتی سموگ، بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات اور کوڑے کرکٹ نے شہر کا سانس گھونٹ دیا ہے۔ نالہ لئی جیسے قدرتی راستے اب تیزی سے بھرنے لگتے ہیں کیونکہ پہاڑوں سے آنے والا پانی رُکنے کی گنجائش نہیں پاتا۔ حسنین رضا جو ایک ماحولیاتی ماہر ہیں وہ بتاتے ہیں کہ اب وہ پانی جو کبھی آٹھ گھنٹے میں راولپنڈی پہنچتا تھا وہ ڈیڑھ گھنٹے میں شہری علاقوں میں داخل ہو جاتا ہے۔
یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2015 سے 2019 تک کا عرصہ کرہ ارض کے سب سے گرم پانچ سالوں میں شمار ہوتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار خطرناک حد سے تجاوز کر چکی ہے، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، سطح سمندر بڑھ رہی ہے، اور دنیا بھر میں ہیٹ ویوز اور طوفانوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان، جو پہلے ہی ماحولیاتی خطرات کی زد میں ہے، جرمن واچ کلائمٹ انڈیکس کے مطابق دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی کو ایک وقتی خبر نہیں بلکہ اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ سمجھیں۔ یہ صرف ایک حکومتی مسئلہ نہیں نہ ہی صرف ایک رپورٹ کا عنوان! یہ ہر فرد کی زندگی، سانس اور مستقبل کا سوال ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شہری منصوبہ بندی کو نئے خطوط پر استوار کرے، نکاسی آب کے نظام کو جدید بنائے اور فطرت کے راستوں کو بحال کرے۔ اور ہمیں، عوام الناس کو چاہیے کہ ہم پانی کا ضیاع روکیں، درخت لگائیں، اور زمین کو وہ مہلت واپس دیں جس کا وہ برسوں سے مطالبہ کر رہی ہے۔
کیونکہ فطرت اگر بولے گی تو وہ خاموشی سے نہیں، بارش، ژالہ باری، سیلاب اور گرمی کی صورت میں بولے گی۔
اور اگر ہم نے اب بھی نہ سنا، تو شاید پھر سننے کی مہلت بھی نہ ملے