غیر مسلم اقلیتوں کا تحفظ: پاکستان کا آئینی وعدہ اور اسلام کا بنیادی اصول
تحریر: ڈاکٹر ریاض احمد سعید نمل یونیورسٹی

پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، جو ایک ایسے نظریے پر قائم ہوا جو انصاف، جمہوریت، مساوات اور مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ 11 اگست کو یومِ اقلیتیں اور 14 اگست کو یومِ آزادی ہے۔ یہ دونوں دن امن ،آزادی اور تحفظ کا پیغام دیتے ہیں۔ یعنی یہ وطن ہم سب کا ہے۔ ہمارے پرچم کا سفید رنگ اقلیتوں کے وجود، تحفظ اور وقار کی علامت ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو اپنی تاریخی تقریر میں کہا تھا: "آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں، آپ آزاد ہیں کہ اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، اس کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔”
یہ جملے محض تقریر نہیں بلکہ ایک ریاستی منشور ہیں جو آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ لیکن افسوس کچھ لوگوں نے اس کی من مانی تعبیر کرکے قیام پاکستان کی بنیاد کو ہی غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
یاد رکھیں اسلام میں اقلیتوں کا تصور کسی رعایت یا احسان کا نتیجہ نہیں بلکہ عدل، رواداری اور انسانی وقار کے بنیادی اصولوں سے جڑا ہوا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ربانی ہے: "دین میں کوئی جبر نہیں” (البقرۃ: 256) اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کرے، یا اس کا حق مارے، میں قیامت کے دن اس کا مخالف ہوں گا” (سنن ابوداؤد 4047)۔ رسول اللہ ﷺ کی قائم کردہ ریاستِ مدینہ اس بات کی پہلی عملی مثال ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ریاست میں آزادی ، برابری اور تحفظ کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ خلافتِ راشدہ کے دور میں بھی یہی اصول قائم رہا۔ اموی، عباسی، عثمانی اور اندلسی حکومتوں میں یہودی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے پیروکار نہ صرف محفوظ تھے بلکہ علم، فن، تجارت ، دفاع اور سیاست میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے۔
اسلام اقلیتوں کو تحفظ اور آزادی اصولی بنیادوں پر عطا کرتا ہے۔ تاریخ اسلام ایسے کئی واقعات اور مثالوں سے مزین ہے، جس میں انصاف کے لیے مسلمان کو غیر مسلم کی شکایت پر سزا دی گئی۔ اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔ خلافتِ فاروقی کے زمانے میں ایک قبطی ( مصری) مسیحی نوجوان دوڑ کے مقابلے میں ایک مسلمان گورنر کے بیٹے سے جیت گیا۔ گورنر کے بیٹے نے غصے میں آ کر قبطی نوجوان کو کوڑے مارے اور کہا کہ تم غلام ہو کر کیسے جیت گئے۔”۔ قبطی نوجوان مدینہ پہنچا اور سیدنا عمرؓ کو شکایت کی۔ حضرت عمرؓ نے فوراً گورنر اور اس کے بیٹے کو مدینہ طلب کیا۔ پھر مجمع عام میں قبطی نوجوان کو کہا کہ وہ گورنر کے بیٹے کو ویسے ہی کوڑے مارے جیسے اس نے اسے مارے تھے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے تاریخی جملہ کہا: "تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا، حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا؟”( تاریخ طبری)
یہ واقعہ صرف ایک عدالتی فیصلہ نہیں بلکہ اسلامی ریاست کا اصولی اعلان تھا کہ مذہب، نسل یا عہدہ کسی کو قانون سے بالاتر نہیں بناتا۔ اور اقلیتوں کو تحفظ اور آزادی اسلامی ریاست کا بنیادی اصول ہے۔
کچھ لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں اقلیتیں دوسرے درجے کے شہری ہیں، مگر تاریخ ان کے اس خیال کی کھلی تردید کرتی ہے۔ اگر وہ ریاستِ مدینہ اور خلافتِ راشدہ سے لے کر اموی، عباسی، عثمانی اور اندلسی حکومتوں کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ غیر مسلم شہری وہاں علم و فن، سیاست اور معیشت، ریاست کی تعمیر اور ملکی دفاع میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بناتے وقت ہم مسلمان خود برصغیر میں ایک اقلیت تھے۔ انگریز سامراج کے جبرو غلامی اور ہندو اکثریت کے سائے تلے ہماری شناخت اور آزادی خطرے میں تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ اقلیت ہونا کیسا ہوتا ہے، اور اسی لیے اگر آج کوئی اقلیت ہم سے شکوہ کرے، تو یہ ہمارے اصولوں اور تاریخ دونوں کے منافی ہوگا۔ پاکستان تو بنا ہی کمزوروں اور محروموں کی پناہ گاہ فراہم کرنے کے لیے تھا، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم
پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کو کھلے الفاظ میں تسلیم کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 20 ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق دیتا ہے ۔ اسی طرح آرٹیکل 22 کسی شہری کو ایسا تعلیمی نصاب پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو اس کے مذہب کے خلاف ہو۔ جبکہ آرٹیکل 25 تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور کسی کو صنف، مذہب یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ ساتھ ساتھ آرٹیکل 36 ریاست اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کی یقین دہانی کرواتا ہے ۔ جبکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 51(4) قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں دیتا ہے اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں یہ نشستیں اسمبلی کی سیٹوں کے تناسب سے ملیں گیں ۔ یہ دفعات صرف کاغذ پر نہیں بلکہ عملی نفاذ کی متقاضی ہیں۔
تاہم عملی طور پر اقلیتوں کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سماجی سطح پر بعض اوقات تعصب، نفرت انگیز بیانیہ اور بین المذاہب عدم برداشت ان کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ تعلیمی حوالے سے کوٹہ ہونے کے باوجود ان کو اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی نہیں ہے۔معاشی اعتبار سے کچھ علاقوں میں روزگار کے مواقع کم ملتے ہیں، اور بعض اہم پیشوں میں غیر اعلانیہ رکاوٹیں حائل ہیں۔ جبکہ ملازمت کے کوٹہ سسٹم کو بھی شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ مذہبی طور پر انہیں عبادت گاہوں کی حفاظت اور بعض اوقات عبادت کرنے کی آزادی کے عملی مسائل کا سامنا بھی رہتا ہے۔ بعض جگہوں پر توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال بھی ایک اہم مسئلہ کے طور پر سامنے ایا ہے۔ اقلیتیں پاکستان میں جبری شادی اور جبری تبدیلی مذہب کی شکایات بھی کرتی آئی ہیں ۔ اس معاملے کی ٹھوس عدالتی تحقیقات ضروری ہیں۔ قانونی اعتبار سے اگرچہ آئین ان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے، مگر نفاذ آئین کے کمزور نظام اور عدالتی تاخیر بعض اوقات انصاف میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ لہذا ترقی یافتہ، پر امن اور خوشحال پاکستان کے لیے ان مسائل کا پائیدار حل ضروری ہے۔
اس تناظر میں یہ بھی ضروری ہے کہ اقلیتیں اس ملک کو اپنا ملک سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں کا بھرپور احساس کرکے اس ملک کی تعمیر وترقی میں برابری کی سطح کا کردار ادا کریں۔ کسی ایک ناخوشگوار واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان یا اسلام مخالف بیانیہ تشکیل دینا ناانصافی اور غیر ذمہ داری ہے۔ بعض این جی اوز، سیاسی جماعتیں اور سیکولر عناصر انفرادی زیادتیوں کو بڑھا چڑھا کر ریاست، اسلام اور اکثریتی عوام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ اقلیتوں کو اکثریت اور ریاست سے دور کر دیتا ہے۔ اقلیتوں کو ایسے عناصر سے ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ ہم سب ایک ہی ملک کے حصے ہیں، اور ہماری خوشیاں اور غم سانجے ہیں۔
یومِ آزادی 14 اگست اور یومِ اقلیتیں 11 اگست ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ آزادی کا دن منانے کا اصل مزہ تب ہے جب ہم آپس میں محبت ، امن اور خیر خواہی کے ساتھ مل کر رہیں۔ اسلام، آئینِ پاکستان اور ہماری تاریخ تینوں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ وطن سب کا ہے، سب کے لیے ہے، اور سب کے ساتھ ہے۔ جب ہم اپنے رویوں، پالیسیوں اور معاشرتی سوچ میں اس اصول کو شامل کر لیں گے تو پاکستان دنیا کے سامنے ایک ایسی ریاست کے طور پر کھڑا ہوگا جہاں مساوات اور رواداری صرف نعرہ نہیں بلکہ عملی حقیقت ہوگی۔