شبر زیدی کی عمران خان کی معاشی پالیسی پر اپنے بیان کی وضاحت
مافیا نے چئیرمین تحریک انصاف کی معاشی پالیسی چلنے نہیں دی، چند ویڈیو کلپس کی بنیاد پر رائے نہ دی جائے، میں نے سسٹم پر تنقید کی ہے کسی پارٹی پر نہیں، شبر زیدی کی وضاحت
شبر زیدی کا کہنا ہے کہ چند ویڈیو کلپس کی بنیاد پر رائے قائم کرنے سے گریز کیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں دیے گئے انٹرویو میں تحریک انصاف پر کی جانے والی تنقید سے متعلق سابق چئیرمین ایف بی آر نے وضاحت کی ہے۔ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں شبر زیدی نے کہا کہ چند ویڈیو کلپس کی بنیاد پر رائے قائم کرنے سے گریز کیا جائے، میرا مکمل انٹرویو دیکھا جائے، میں یقینی بناوں گا کہ میرے انٹرویو کی غیر ضروری ایڈیٹنگ نہ کی جائے۔
میں برملا کہہ چکا ہوں کہ عمران خان کی معاشی پالیسی میں کوئی عیب نہیں تھا، تاہم مافیا نے چئیرمین تحریک انصاف کی معاشی پالیسی چلنے نہیں دی۔ میں نے تحریک انصاف کی حکومت میں آئی ایم ایف پروگرام شروع ہونے سے قبل عمران خان سے ملاقات میں کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے، جس کے بعد ہی اس وقت کی حکومت آئی ایم ایف پروگرام میں گئی۔
میں اس سال دسمبر میں ہی ممکنہ ڈیفالٹ سے متعلق خبردار کر چکا تھا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت کے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے غلطی سے ملتان میں ایک بڑے زمیندار کو نوٹس دے دیا، میرے دفتر میں شاہ محمود قریشی کی قیادت میں نصراللہ دریشک سمیت 40ایم این ایز آئے،کہنے لگے ہم جنوبی پنجاب کے ایم این ایز ہیں، ہمارے بغیر حکومت نہیں چل سکتی۔
میں نے تمباکو مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی، اسد قیصر نے کہا کہ ہمارے فرنٹیئر کے ایم این ایز آپ سے ملنا چاہتے ہیں، وہ سارے تمباکو کے کاشتکار ہیں،قبائلی علاقوں میں اسٹیل ری رولنگ ملزپر ہاتھ ڈالا تو فاٹا سینیٹرز نے چیئرمین پی ٹی آئی کو کہا کہ انہیں روکیں۔ خیبرپختونخواہ کے ارکان اسمبلی نے کہاکہ آپ ہمارے علاقے میں نہیں آسکتے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی حکومت چلتی رہتی تو ملک معاشی طور پر تباہ ہوجاتا، تو حکومتی مدت ختم ہونے تک ملک معاشی طور پر تباہ ہوجاتا، اگر حکومت چلتی رہتی تو الیکشن میں پارٹی کو پانچ فیصد بھی ووٹ نہیں ملتا، چیئرمین پی ٹی آئی کو معیشت سے متعلق مشورہ دیتا تھا لیکن چیئرمین پی ٹی آئی مشورہ سننے کے موڈ میں نہیں تھے، ن لیگ کے اراکین کی ٹیکس فائلیں مانگی جاتی تھیں۔