پیکا ایکٹ کی منظوری پر اپوزیشن اور صحافتی تنظیموں کا احتجاج جاری۔

پیکا ایکٹ کیا ہے؟ تمام تر تفصیلات سامنے آگئیں

23 جنوری کو قومی اسمبلی نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے بل یعنی ”پیکا ایکٹ“ کی منظوری دی ،صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن اس کو کالا قانون، آزادی اظہار رائے اور میڈیا پر حملہ قرار دے رہی ہیں جبکہ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور یوٹیوبرز کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے،پیکا ایکٹ ترمیمی بل میں ایک طرف نئی ریگولیٹری اتھارٹی، ٹربیونل اور نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام، اختیارات اور فنکشنز کا ذکر ہے تو دوسری طرف غیر قانونی مواد اور اس کے خلاف کاروائی کا طریقہ کار واضح کیا گیا ہے۔

23 جنوری کو قومی اسمبلی نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا بل یعنی (Prevention of electronic crimes act 2025)کی منظوری دی، جس کے بعد صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن کا احتجاج جاری ہے۔ صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن اس کو کالا قانون، آزادی اظہار رائے اور میڈیا پر حملہ قرار دے رہی ہیں جبکہ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور یوٹیوبرز کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل میں ایک طرف نئی ریگولیٹری اتھارٹی، ٹربیونل اور نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام، اختیارات اور فنکشنز کا ذکر ہے تو دوسری طرف غیر قانونی مواد اور اس کے خلاف کاروائی کا طریقہ کار واضح کیا گیا ہے۔

بل کے مطابق غیر قانونی مواد کیا ہے؟

بل کے مطابق ایسا کانٹینٹ جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، ایسا مواد جو لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کیلئے اشتعال دلائے، یا عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، ایسا مواد غیر قانونی ہے۔ عوام یا ایک سیکشن کو حکومتی یا پرائیوٹ پراپرٹیز کو نقصان پہنچانے کیلئے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زنگی میں خلل ڈالنا بھی ممنوع ہوگا۔ نفرت انگیز، توہین آمیز، فرقہ واریت ابھارنے اور فحاشی پر مبنی کانٹینٹ کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ بل کے مطابق اراکین پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی قابل گرفت ہوگا۔ ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں اور دہشتگردی کو حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیر قانونی ہوگا۔ چیئرمن سینیٹ، سپیکر قوم اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی جانب سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے۔ کلعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

غیر قانونی مواد، جھوٹی خبر پھیلانے کی سزا کیا ہوگی؟

ہر وہ شخص جو جان بوجھ کر ایسی معلومات پھیلائے گا جو غلط ہوں یا فیک ہوں یا جس سے خوف و حراس پھیلے یا عوام میں افرا تفری اور انتشار پیدا ہو اس شخص کو 3سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ کیا جا سکے گا یا یہ دونوں سزائیں دی جا سکیں گی،بل کے تحت قائم کی جانے والی ریگولیٹری اتھارٹی، تحقیقاتی ایجنسی، ٹربیونل اور کمپلینٹ کونسل کیا کام کریں گے؟

اس بل کے تحت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے اتھارٹی قائم کی جائے گی جس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا۔ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔

ریگولیٹری اتھارٹی کے اختیارات،فنکشنز اور ذمہ داریاں ؟

یہ اتھارٹی لوگوں کی آن لائن سیفٹی یقینی بنائے گی، ملک میں غیر قانونی اور جارحانہ مواد کو ریگولیٹ کرے گی، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹر، رینیو، معطل یا رجسٹریشن ختم کرنے کی مجاز ہوگی۔ اس بل پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو وقتی طور پر یا مستقل بلاک کرسکے گی، سوشل میڈیا کانٹینٹ سے متعلق ہدایات دینا اور معیار مقرر کرنا بھی اس اتھارٹی کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا۔اس بل کے تحت دی گئی درخواستوں پر کاروائی بھی اس اتھارٹی کے اختیارات اور ذمہ داریوں میں شامل ہے، خلاف ورزی کرنے کی صورت میں جرمانے تجویز کرنا بھی اس اتھارٹی کا کام ہوگا۔غیر قانونی مواد بلاک کرنے کے لیے یہ اتھارٹی متعلقہ اتھارٹیز کو ہدایات دے سکے گی کانٹینٹ بلاک کرنے کی مدت 30 دن ہوسکتی اس میں 30 دن کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ آن لائن سیفٹی کو یقینی بنانے کے لئے یہ اتھارٹی دیگر بین الاقوامی ایجنسیز کے ساتھ بھی کام کرسکے گی اور انفارمیشن شیئرنگ کرسکے گی یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ان کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔

جھوٹی خبر یا انفارمیشن پر اتھارٹی کو درخواست دینے کا مقرر وقت کیا ہے؟

غلط اور جھوٹی خبر سے متاثرہ شخص کو اتھارٹی کو خبر ہٹانے یا بلاک کرنے کے لئے24 گھنٹے سے پہلے درخواست دینا ہوگی۔

ریگولیٹری اتھارٹی میں کون کون شامل ہوگا؟

سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی چیئرمین اور 8 ممبران پر مشتمل ہوگی۔ سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا اور چیئرمن پی ٹی اے ایکس آفیشل ممبران ہوں گے۔ چیئرمین اور دیگر 5ممبران کی تعیناتی وفاقی حکومت کرے گی۔ ان کی مدت5 سال کے لئے ہوگی اور ایکسٹینشن نہیں دی جا سکے گی۔ 10 سالوں پر محیط تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجینئر، ایڈووکیٹ، سوشل میڈیا پروفیشنل، آئی ٹی انٹرپرینور اتھارٹی کے ممبران میں شامل ہوں گے۔ اتھارٹی کے مالی سال کے آخر میں سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔ پالیسی میٹرز پر وفاقی حکومت اتھارٹی کو ہدایت جاری کر سکے گی۔

اتھارٹی کو استثنیٰ حاصل ہوگا ؟

بل کے مطابق نیک نیتی سے کیے گئے اقدامات اور فیصلوں پر اتھارٹی، حکومت یا کسی شخص پر مقدمہ یا کوئی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔

سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل کیا ہے؟

سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل ایک چیئرمین اور4 ممبران پر مشتمل ہوگا جہاں عام لوگوں، تنظیموں اور شخصیات کی شکایات وصول کی جائیں گی اور ان درخواستوں کو پراسس کیا جائے گا چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی3 سال کیلئے ہوگی جس میں وفاقی حکومت 3 سال کی مزید توسیع دینے کی مجاز ہوگی۔ چیئرمین اور ممبران کے لئے بیچلر ڈگری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، قانون اور سوشل میڈیا پالیسی یا متعلقہ فیلڈز میں15 سالہ تجربہ درکار ہوگا۔

سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل کیا ہے؟

وفاقی حکومت اس بل کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی۔ ریگولیٹری اتھارٹی کے فیصلے سے متاثرہ شخص ٹربیونل میں درخواست دے سکے گا۔ جبکہ ٹربیونل کے فیصلے سے متاثرہ شخص 60 دن میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکے گا۔ ٹربیونل تمام کیسز کے فیصلے90 دن کے اندر کرے گا۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل چیئرمین اور 2ممبران پر مشتمل ہوگا، چیئرمین ایسا شخص ہوگا جو ہائی کورٹ کا جج رہا ہو، یا ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے کوالیفائیڈ ہو۔ ایک ممبر ایک ایسا شخص ہوگا جو کسی بھی پریس کلب کا ممبر ہو، جرنلزم میں بیچلر ڈگری کا سند یافتہ ہو، اور12 سال پر محیط پیشہ ورانہ تجربہ رکھتا ہو۔ دوسرا ممبر سافٹ ویئر انجینئر ہوگا اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہوگا، چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی3 سال کیلئے کی جائے گی۔

نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کا قیام

اس بل کے تحت نیشنل سائبر کرائم ایجنسی قائم کی جائے گی جو اس بل کے تحت انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کرے گی اس ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا اس ونگ میں کام کرنیوالے تمام اہلکار، کیسز، انکوائریز، تحقیقات، اثاثے، پراپرٹیز، بجٹ، حقوق اور استحقاق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی میں ٹرانسفر کر دیے جائیں گے وفاقی حکومت اس قانون کے تحت ایک یا ایک سے زیادہ جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمز بنا سکے گی جو تحقیقات کے لیے کسی بھی انویسٹی گیشن ایجنسی سے معاونت لے سکیں گی۔https://twincitynews.pk/real-estate/

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Open chat
رہنمائی حاصل کریں
السلام علیکم! ہم آپ کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟