نکاح کی عمر اور اسلامی ذمہ داری

پاکستان میں حال ہی میں منظور کیا گیا "میریج رجسٹریشن ایکٹ 2025″ جس میں شادی کی رجسٹریشن کے لیے کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے، ایک بار پھر دینی حلقوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی تنقید کی زد میں ہے۔ بعض علما اس قانون کو "غیر اسلامی” قرار دے رہے ہیں، لیکن اس رائے میں ایک سطحی اور محدود تعبیرِ شریعت کارفرما ہے، جو نہ صرف قرآن و سنت کی اصل روح کو نظر انداز کرتی ہے بلکہ موجودہ معاشرتی حقائق سے بھی ناآشنا ہے۔

اکثر علما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ چونکہ شریعت نے نکاح کے لیے بلوغت کو معیار بنایا ہے، اس لیے ریاست کسی عمر کی حد مقرر نہیں کر سکتی۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام صرف حیاتیاتی بلوغت کو نہیں، بلکہ فکری و اخلاقی پختگی (رُشد) کو اصل معیار قرار دیتا ہے۔
قرآن مجید سورۃ النساء کی آیت نمبر 6 میں ارشاد ہے:

> "اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان میں سوجھ بوجھ (رشد) دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔”

یہ آیت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ محض جسمانی بلوغت کافی نہیں بلکہ عملی زندگی کے فیصلوں میں سمجھ بوجھ اور ذمہ داری کو اصل بنیاد بنایا گیا ہے۔ اگر مال کی ذمہ داری کے لیے بھی رشد درکار ہے تو نکاح جیسے عظیم اور نازک بندھن کے لیے صرف بلوغت کافی کیسے ہو سکتی ہے.

بدقسمتی سے ہمارے معاشرتی اور دینی بیانیے میں نکاح کو اکثر صرف جنسی خواہشات کی تکمیل کے تناظر میں بیان کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں نکاح ایک مکمل سماجی ادارہ ہے جس میں کفالت، حسنِ سلوک، اولاد کی تربیت، خاندانوں کا باہمی ربط، اور معاشرتی نظم شامل ہوتا ہے۔

اسلامی تعلیمات شوہر پر بیوی کی کفالت، بیوی کے خاندان کے ساتھ عدل، بچوں کی تربیت، اور اپنی ماں اور بیوی کے درمیان توازن جیسے اعلیٰ اخلاقی اور عملی فرائض عائد کرتی ہیں۔ کیا ایک 15 یا 16 سالہ نابالغ ان فرائض کو نبھا سکتا ہے؟
ظاہر ہے کہ نہیں۔ اور جب وہ ان ذمہ داریوں کے لیے تیار نہیں، تو نکاح کی اجازت دینا شریعت کے بنیادی مقاصد کی خلاف ورزی ہے۔

اسلامی فقہ میں ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مصلحتِ عامہ کے تحت ایسے قوانین بنائے جو معاشرتی بگاڑ کو روکیں۔ فقہی اصول "سد الذرائع” کے تحت اگر کسی کام کے ذریعے فساد کا امکان ہو تو اسے روکا جا سکتا ہے۔

کم عمری کی شادیوں سے جو نقصانات سامنے آتے ہیں — جیسے تعلیم کا چھوٹ جانا، گھریلو تشدد، ذہنی دباؤ، اور مالی عدم استحکام — وہ سب اسلامی اصولِ عدل، شفقت، اور تحفظِ انسانی وقار کے خلاف ہیں۔

لہٰذا اگر ریاست یہ فیصلہ کرتی ہے کہ 18 سال سے کم عمر افراد نکاح کے لیے ذہنی و اخلاقی طور پر تیار نہیں ہوتے تو یہ فیصلہ نہ صرف عقلی و سائنسی بنیاد پر درست ہے بلکہ اسلامی اصولوں کے عین مطابق بھی ہے۔

پاکستان اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن (UNCRC) کا دستخط کنندہ ہے، جو ہر فرد کو 18 سال سے کم عمر تک بچہ تسلیم کرتا ہے۔ ریاستِ پاکستان آئینی طور پر بھی بچوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کی پابند ہے (آرٹیکل 25(3))۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بین الاقوامی اصول ہمیشہ مغربی یا غیر اسلامی نہیں ہوتے۔ اکثر اوقات وہ انسانی فطرت اور اسلامی اخلاقیات کے قریب ہوتے ہیں، اور جب اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ کمزور طبقے کی حفاظت کرنا فرض ہے تو ایسے قوانین اسلامی اقدار کی ترویج کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

آخر میں، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اسلام محض رسومات یا جسمانی معاملات کا مذہب نہیں بلکہ عقل، ذمہ داری، اور سماجی انصاف کا مذہب ہے۔
"میریج رجسٹریشن ایکٹ 2025” دراصل اسلام کے اصل مقاصد — تحفظِ عقل، نسب، اور وقار — کا محافظ ہے۔

ہمارے علما اور دینی اداروں کو تاریخی تشریحات کے خول سے باہر آکر اجتہادی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ایسے قوانین کی حمایت کرنی ہوگی جو اسلام کے اخلاقی دائرہ کار اور عصرِ حاضر کے تقاضوں کو یکجا کرتے ہیں۔

مرکزی ڈیسک

ٹوئن سٹی نیوز پاکستان کے دو بڑے شہروں راولپنڈی اسلام آباد کا مقامی سطح کا ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم ہے،جو جڑواں شہروں کی مقامی خبروں کے ساتھ راولپنڈی اسلام آباد کا مقامی کلچر، خوبصورتی، ٹیلنٹ اور شخصیات کو سامنے لےکر آتا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Open chat
رہنمائی حاصل کریں
السلام علیکم! ہم آپ کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟