اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا ،22جون تک آئی جی کو ترمیمی جواب جمع کرانے کا حکم
عدالت نے 22جون تک آئی جی کو ترمیمی جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔سماعت کت دوران وکیل زاہد آصف نے کہاکہ گزشتہ سماعت پر آئی جی کی جانب سے جواب جمع کرا دیا گیا تھا،جب آرڈر کیا گیا تھا اس وقت پولیس کا کوئی آفیشل موجود نہیں تھا۔عدالت نے آئی جی کا جواب عدالت کے سامنے پڑھنے کی ہدایت کر دی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ تاثر ہے اسلام آباد پولیس پنڈی ڈی سی کا آرڈر ہائی کورٹ کے آرڈر سے اوپر سمجھتی ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ یہ بڑا مسئلہ ہے، اسے ہلکا نہ لیں، اٹارنی صاحب یہ آئی جی کے جواب کو دیکھیں،جب شیریں مزاری کو گرفتار کیا گیا انہوں نے آرڈر کی مصدقہ کاپی دکھائی، عدالت گرفتاری سے روک رہی ہے،پولیس پنڈی ڈی سی کے آرڈر کی پیروی کر رہی ہے۔آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو بولنے سے روک دیا۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ میں اپنے افسران کا تحفظ کروں گا، ہمیں اس کورٹ کے آرڈر سے متعلق معلوم نہیں تھا۔عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہی کام کیا کریں اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کر کے کہیں میں پروٹیکٹ کروں گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیتے ہوئے کہاکہ آئی جی صاحب ترمیمی جواب جمع کرائیں، اگر لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔
عدالت نے کہا کہ جب عدالت کا حکم موجود تھا تو اسلام آباد پولیس کو پنجاب پولیس کو روکنا چاہیے تھا،یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ یہ کہیں کہ ہم نے گرفتار نہیں کیا، ہم نے صرف سہولت فراہم کی،اگر ایک بار توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو گئی تو وہ پھر اپنے حتمی فیصلے تک پہنچے گی۔وکیل زینب جنجوعہ نے عدالت کو بتایاکہ ہمارے پاس پوری ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے، ہم نے عدالتی حکم دکھایا تو اسلام آباد پولیس نے کچھ وقت لیا پھر کہا گرفتاری کرنی ہے۔