الیکشن کمیشن کا سرکاری اداروں کی رائے پر انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان غیر آئینی ہے. سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا سرکاری اداروں کی رائے پر انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان غیر آئینی ہے، اس سے قبل سپریم کورٹ کے دوصوبوں میں الیکشن کے معاملہ پر ازخود نوٹس سے بھی ابہام پیدا ہوا تھا، اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں 90دن میں الیکشن کرانا ضروری ہیں، پنجاب میں انتخابات کے لیے 30اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی جو کہ آئینی مدت سے 14دن تجاوز تھا۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو بلا کر ایک ہی روز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے راضی کرے تاکہ عوام کو آزادانہ اور شفاف طریقے سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار ملے۔
اسلام آباد کی جامع مسجد فرقان میں خطبہ جمعہ کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی لڑائی کے نتیجے میں رہی سہی کمزور جمہوریت بھی ختم ہونے کا خطرہ ہے، سیاسی اطراف کے مابین کم از کم ایجنڈے پر ڈائیلاگ کا آغاز نہ ہوا تو جمہوریت کی گاڑی گہری کھائی میں گرے گی، حکمران جماعتیں ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ذاتی مفادات کے چکروں سے باہر نکلیں، ان کی جنگ میں قومی سیاست بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی موجودہ اتحادی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی، اس نے گزشتہ 11ماہ میں ہر شعبہ میں تباہی مچائی، یہ پی ٹی آئی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے، اس وقت ملک میں ساری کارروائی آئی ایم ایف کے بھاشن کے مطابق ہو رہی ہے، رمضان کے مقدس مہینے میں بھی حکومت عوام کو کسی قسم کاریلیف نہیں دے سکی، غریبوں کی آٹے کی لائنوں میں شہادتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت نے رمضان کے مہینے میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر طول و عرض میں کئی کئی گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے، بڑے شہروں میں گیس کا بھی بحران ہے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں، حکومت اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 50فیصد کمی کرے، بجلی اور گیس کا ٹیرف کم کیا جائے۔
سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی منشور میں کیے گئے تمام وعدے پورے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جماعت اسلامی کا منشور دوسری جماعتوں کی طرح محض لفظی مشق نہیں بلکہ یہ وہ ویژن اور خاکہ ہے جو ہماری سات دہائیوں کی جدوجہد کا عکاس ہے۔ انھوں نے کہا کہ 75برسوں سے ملک کو اسلامی نظام سے محروم رکھا گیا، اگر قیام پاکستان کے بعد ملک میں قرآن و سنت کی حکمرانی قائم ہو جاتی تو بنگلہ دیش الگ نہ ہوتا، فوجی ڈکٹیٹروں اور نام نہاد جمہوری حکومتوں نے مل کر ملک کا حلیہ بگاڑا۔ عدل و انصاف کی حکمرانی، کرپشن کا خاتمہ، وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو جائے تو ملک کو بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں۔ صرف جماعت اسلامی ہی یہ مقاصد حاصل کر سکتی ہے۔ ہمارا ماضی اور حال سب کے سامنے ہے، زلزلہ، کرونا ہو یا سیلاب جماعت اسلامی نے ہر مشکل وقت میں عوام کی خدمت کی۔
امیر جماعت نے کہا کہ جماعت اسلامی کو اقتدار ملا تو سیاسی جماعتوں، ماہرین معیشت اور تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے میثاق معیشت تیار کیا جائے گا، سودی نظام کا خاتمہ کریں گے، ناجائز منافع خور مافیاز اور کارٹلز کو ختم کر کے اشیائے خورونوش اور ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام لائیں گے، بلواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کا منصفانہ فارمولا بنایا جائے گا، جنرل سیلز ٹیکس کو پانچ فیصد سے کم کیا جائے گا، اندرون و بیرون ملک سے ترسیلات زر پر بنک چارجز کم کریں گے، گورنر سٹیٹ بنک پارلیمنٹ اور حکومت کے سامنے جوابدہ ہو گا، غیر ترقیاتی اخراجات میں 30فیصد کمی کر کے سرکاری اداروں میں اسراف کا خاتمہ کر کے سادگی اور قناعت اختیار کی جائے گی، قومی اداروں کی فروخت یا نجکاری کی بجائے انھیں منافع بخش بنانے کے لیے اہل انتظامیہ کا تقرر کیا جائے گا، ملک میں بلا امتیاز اور بے لاگ احتساب کا نظام قائم کیا جائے گا