پاک افغان یوتھ فورم نے ” پاکستان میں موجود افغان اور پالیسیز میں کامیابیاں اور ناکامیاں” کے عنوان سے ویبینار کا انعقاد
اسلام آباد (اسامہ قذافی سے) پاک افغان یوتھ فورم نے ” پاکستان میں موجود افغان اور پالیسیز میں کامیابیاں اور ناکامیاں” کے عنوان سے ایک ویبینار منعقد کیا۔ اس ویبینار میں ماہرین، پالیسی سازوں، اور کمیونٹی رہنماؤں نے افغان مہاجرین کے تجربات پر تبادلہ خیال کیا، جو انسانی ہمدردی، معیشت، اور سماجی و سیاسی پہلوؤں پر مبنی تھا۔
پاکستان گزشتہ 40 سالوں سے دنیا میں سب سے بڑی افغان مہاجر آبادی کی میزبانی کر رہا ہے، جہاں انسانی ہمدردی کی ضروریات اور معاشی دباؤ کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ تعلیم، تجارت، اور انضمام جیسے شعبوں میں مہاجر برادری نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن پالیسی میں خلا، محدود وسائل، اور علاقائی سلامتی جیسے مسائل بدستور چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
تقریب کا آغاز پاک افغان یوتھ فورم کے ڈائریکٹر جنرل سلمان جاویدکے افتتاحی کلمات سے ہوا۔ انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مضبوط تعلقات کے فروغ کی اہمیت پر زور دیا، خاص طور پر ان مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جو دونوں ممالک کو درپیش ہیں۔ انہوں نے مہاجرین کے بیانیے کو بحران سے موقع میں بدلنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی ترقی اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔
ویبینار کی میزبانی اقراء نصیر نے کی۔ ویبینار میں شامل دیگر مقررین میں سینئر صحافی امتیاز گل، پاکستان الائنس فار گرلز ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فاجر رابعہ پاشا، سی ای او فجریستان ریجنل انٹیگریشن موومنٹ محب اللہ نوری اور بانی فغانستان سولیڈیریٹی فار سوشل اینڈ ہیومینٹی آرگنائزیشن ہدایت جان تنائی نے شرکت کی۔
امتياز گل نے پاکستان کی مہاجر پالیسیوں پر نظر ثانی کی اہمیت پر زور دیا تاکہ انسانی ضروریات اور قومی سلامتی کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔ انہوں نے ماضی کی غلطیوں، جیسے وسائل کے حد سے زیادہ استعمال، کی نشاندہی کی اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی پالیسی تبدیلیاں تجویز کیں۔فاجر رابیہ پاشا نے افغان لڑکیوں کے لیے تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ نمایاں کامیابیاں ہونے کے باوجود رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں، اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مخصوص تعلیمی اقدامات ضروری ہیں تاکہ افغان مہاجرین کو پاکستانی معاشرے میں مؤثر انداز میں ضم کیا جا سکے۔
محب اللہ نوری نے افغان مہاجرین کے بحران کے علاقائی پہلو پر بات کرتے ہوئے سیاسی اور سلامتی کے مسائل کو مہاجرین کے چیلنجز کے حل کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ یورپی یونین ماڈل کی طرح علاقائی تعاون پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون کو فروغ دے سکتا ہے، اور مہاجرین کو علاقائی رابطے اور معاشی ترقی کے اثاثے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ہدایت جان تنائی نے پاکستانی مقامی تاجروں اور افغان مہاجرین کے درمیان تجارت کے شعبے میں اقتصادی مواقع پر روشنی ڈالی۔
ویبینار کے اختتام پر مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ افغان مہاجرین کی صورتحال کو ایک چیلنج کے بجائے خطے کی ترقی اور استحکام کے لیے ایک محرک میں تبدیل کرنے کے لیے مربوط اور دور اندیشی پر مبنی حکمت عملی ضروری ہے